شاعر : عُزیر مھرؔ

محبت کھیل تھوڑی ہے
بازیچئہ اطفال تھوڑی ہے
انگارہِ آتش کو دل میں جگہ دینا
 سینئہ قرار کو بے تاب رکھنا
ہجر کی تلخیوں کو سہہ کر حلق کا سوکھ جانا
فرقت کی راتوں میں مِلن کے بارے میں خون کے آنسو رونا
دلِ بسمل کو چاک کرنا
فُغاں ہونا، فنا ہونا
گُل و لالہ سے مِل جانا
آب و گِل کا سِل جانا
کبھی اپنی ہستی اور پستی سے پرے جانا
جھوم اُٹھنا، یار میں غرق ہوجانا
کبھی صحراِ نجدؔ میں ننگے پا چلے جانا
کبھی تو بلند و بالا پہاڑوں سے دودھ کی ندیاں بہا دینا
یار کی خاطر،
رقص کرنا، سوئے دشت چلنا
وہ چاہے تو بیڑیوں کا اسیر ہوجانا
 کاسئہ زہر کو بے خوف پی جانا
دیدارِ یار میں ادوار لگتے ہیں
مگر ان عاشقوں کو خار لگتے ہیں
تو ملتانؔ، کشمیرؔ، افریقہؔ، لندنؔ میں ہونا پر
ہوا کی آہٹوں میں محسوس کرلینا
وجودِ یار کو،
اپنے دلدار کو،
محبت بے رنگ زندگی میں رنگ بھرتی ہے
کینہ، کدورت، حسد سے جنگ کرتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے مگر یہ ہار جاتی ہے
محبت رنگ، نسل، زات پات سے بالا
محبت سیم و زر، مال و دولت سے ہے اعلی
محبت دم گُھٹن ہوتی ہے زمانے کے لوگوں کی جہالت سے
بابا آدمؔ اور بی بی حواؔ کا گنجِ خزینہ ہے
محبت رفعتِ انسان کا زینہ ہے
خداوندِ مہربان کا کلامِ شیریں محبت ہے
وجودِ کائنات کا سرچشمہ محبت ہے
ھُو سے شروع تُو پہ ختم ہوتی ہے
محبت واصفؔ کا گُفتار ہے
محبت بُلّھے شاہؔ کی سودائی
رومیؔ و تبریزؔ کی گویائی
سچل سرمستؔ کا پیراہن
وارثؔ و لطیفؔ کی ملکیت
محبت بے کسوں کا رہبر ہے
محبت بُو علی قلندرؔ کی زبان ہے
محبت سیدؔ کا حانُل ، عطاؔ کا "دوزھیں شالؔ" ہے "
محبت رانجھےؔ کا پگڑی، ہیرؔ کی کنگھن ہے
محبت حانیؔ کا دوپٹہ، شےؔ کا وعدہ ہے
محبت شیریںؔ کا مخملی پوشاک، فرہادؔ کی چاہت
محبت مجنونؔ کی دلداری، لیلیؔ کی مُورت ہے
شہدادؔ کے افسانے، مھنازؔ کے لمبے بال
محبت سسّیؔ کے آبلہ پاؤں، پنوںؔ کا جلتا سینہ ہے
اپنی ہستی کو بھی تباہ کرسکتی ہے
محبت موت کو بھی گود میں بِھٹا سکتی ہے
سُنو !
مجھے تم سے محبت ہے عزیزم ، ابھی اظہار کرتاہوں
" من ءَ گوں تو مھر اِنت "
" I Love You "
 أنا أحِبُكِ""
"Te Amo"
دوستت دارم"" 
مگر اظہار کرنے سے محبت تام ہوتی ہے؟
بھلا کوئی بھی قدح سے حصولِ جام ہوتی ہے؟
محبت الفاظ سے پرے !
محبت بہری، اندھی، لولی، لنگڑی کوئی جانور ہے
نہ سر اس کا، نہ پا اس کا
تمہاری ساری باتیں بے کار جائیں گی
تمہاری ساری قوت پانی میں جائیں گی
ہواِ نفس کا مارا ! 
شہوتِ نفسانی کا قیدی ہو
محض ایک گوشت کے ٹکڑے کا شوقین تم
تمہاری حیوانیت سے کُتّا بھی اچھا ہے! 
حدوں کو پار کرنے والے تم ایک لعنتی حیوان! 
بنتِ حواؔ کی عظمت کو پامال کرتے ہو! 
کہتے ہو محبت ہے مگر یرغمال کرتے ہو! 
محبت کہہ نہیں سکتے حیوانیت ہے یہ
تمہاری بے کار ہستی کا بے کار خصلت یہ
گر تم واقعی چاہتے ہو محبت کرنا
تم اپنا روح کسی کے حوالے کردو
جسدِ خاکی کو اپنی پہنچ میں رکھ کر
جیئو، چمکو، رہو زندہ یار کی خاطر
امنگوں، خواہشوں، رغبات کے اندر
تمام رعنائیوں، زیبائوں سے پیار کرنا
محبت کی خاطر اپنے آپ کو بے نام کرنا
محبت کھیل تھوڑی ہے! 

0 Comments