شاعر : عُزیر مھرؔ

تیرے کوچے کی چاہ اب بھاتی کہاں ہے ! 
ان گنت صدیوں سے پیاسا
صحراِ تھر و نمیبیا سے خشک تر تھا میں
چاہت، لگن مجھے ہر وقت آس تھی تیری
جانِ من مجھے ہر وقت پیاس تھی تیری
شِدّت سے دعا مانگی، بے حساب مانگی
کہ تیری قربت مل جائے
دلِ مُردہ بھی کِھل جائے
تیری وصل و دید کے خواستگار ہم تھے
تیرے انجمن کے بے قرار ہم تھے
ہم چاہتے تھے کہ تیری رفاقت مل جائے
رنج، غم، اندوہ سب گھل جائے
پر ابھی کچھ دنوں کا قصہ ہے
پر ابھی بے قراری، بے نوری
وصل سے پہلے کیوں دوری
تیرے کوچے کی ہوا اب کیوں بھاتی نہیں ہے
مہکتی، چمکتی رنگینیوں کا راہ و در
میری بے چینیوں کا ہے محور
کیوں روٹھا،  سُونا ہے
بہار سے قبل خزاں جیسے
روٹھ گئے ہو کیا تم مجھ سے؟
جو ساتھ بھی نہیں دیتیں میرے دونوں یہ پاؤں
کہ یہ چل پڑیں تیرے کوچے کی دلنشین راہ کو
پراگندہ ہوئے میرے بال
مرجھا گیا میرا یہ کھال
حال میرا ہے اب بدحال
سنورنا، سجنا، چھوڑ دیا ہم نے
جب سے تم نے ہم کو بھی دل سے ہی نکالا ہے
ہم اب بلا کہاں تم کو یارِ بے وفا کرتے! 



0 Comments