تحریر از: عُزیر مھرؔ

جاناں تمہیں یاد ہے
یارم، گُل بدن تمہیں یاد ہے
تمہیں یاد ہے تم نے کہا تھا کہ
کبھی بھی تمہیں نہ یاد آؤں گا میں 
کالی راتوں میں بھی
دن کے اجالوں میں بھی
کیسے بھلا ایسے ممکن ہوا
جو تمہیں یاد بھی نہ آہوں میں
ویسے پردیس میں بھی تمہیں چین کہاں
تم بھی سِسکتے بِلکتے ہو یونہی وہاں
ویران دن بے لطف شام ہیں
وہاں جاکر تمہیں بھلا کہاں آرام ہے
میری یادیں تجھ کو ستاتی بہت ہیں
میری آہٹیں تجھ کو رُلاتی بہت ہیں

میں جانتا ہوں تم کو کتنا یاد آتا ہوگا اپنا گنجیں گْوادؔر جِسے تم ہر وقت کوستے رہتے تھے۔ یوں کہتے تھے کہ بھلا یہ بھی کوئی شہر ہے زندگی کی رمق سے ہاری ہوئی۔ ہاں جاناں تمہیں یاد ہے یا نہیں !

تمہیں یاد ہے کہ تم نے کہا تھا پدی زِر کی ہوا میرے دل کو بھاتی نہیں ہے۔ تمہیں یاد ہے جاناں تم نے کہا تھا کہ دیمی زِر کے ماھیگیر ہمیں بے زائقہ لیجر و چانچو  کھلاتے ہیں۔

اور شاید تمہیں یہ بات بھی بخوبی یاد ہے  جاناں کہ تم نے کہا تھا اب کی بار میں کریمک ہوٹل کا رخ نہیں کرتا کیونکہ وہاں کا بوسیدہ چھت مجھے ہلاک نہ کردے۔ تم نے یہ شکوہ بھی کیا تھا کہ کریمک ہوٹل میں جسٹِن بئبیر اور شکیرا کے گانے کے بجائے نورخان اور نصیر پسنی والا کا گیت چلایا جاتا یے۔ تم اس خوف سے بھی کریمک ہوٹل جانے سے گُریزاں تھے کہ وہاں کے سگریٹ نوشوں کے سگریٹ کا دھواں تجھے کینسر میں مبتلا نہ کردے۔

جاناں تمہیں یاد ہے کہ تم نے کہا تھا کہ مُلا فاضل چوک مجھے بلکل بھی پسند نہیں ہے کیونکہ وہاں ٹریفک کا کوئی نظام نہیں ہے۔ تم بلا کیسے بُلا سکتے ہو وہ دن جب ہم پرانا شاہی بازار ماما ابراھیم پان والا کے دکان پان لینے گئے تو تم نے اس وجہ سے پان کھانے سے انکار کیا کہ تمباکوں میں وہ سواد نہیں رہا اب میرا جی مِتلاتا ہے۔

جانم مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ہم کوہِ باتیل شگوشگ ڈھونڈنے کے لیے گئے تو تم مجھ سے اس لیے ناراض ہوئے تھے کہ تمہارے ہاتھ میں فقط دو شگوشگ اور میرے ہاتھ میں چار شگوشگ آئے تھے اور تم نے غصّے میں آکر کہا :

" کوہ ءَ پورہ شگوشگ ءِ ڈُکّال اِنت ! ! "

ماھتاب، ماہ جبین، ماہ رُوح
بس کروں یا بولوں زرا !  
تم کو ڈستی ہیں گْوادر کی یادیں ناگِن کی طرح
جاناں تمہیں یاد ہے ! 



0 Comments