شاعرہ: گائیترِی پھوکن

مترجم عُزیر مہرؔ


گھپ اندھیری شب میں

اِک دن آؤگے تم

چوری چپکے سے ترے ہاتھ میں ہاتھ ملائے

 دور سے  بہت دور تلک جائیں گے ہم

تمہارے لیے ہی میں نے آراستہ کیا ہے خود کو

عمدہ شکل و صورت میں ڈھالنے کے لیے

کتنے عرصے سے اپنے تن کو قابو کرکے سنبھالا ہے

کتنا جتن و جانفشانی کی ہے

مجھے کامل یقین تھا کہ

ایک دن مجھے لینے ضرور آؤگے تم  

 میں نے تخم ریزی کی اور محبت، امید اور نہ جانے کیا کیا ان گنت ارمانوں کے پودے لگائے

حتی کے رخصتی کے وقتِ آغوشی میں بھی

شاید غمِ اشک کا ایک قطرہ ٹپکا ہوگا

 ایک درد بھری آہ نکلی ہوگی

کون التفات میں لائے گا

میرے پیارے سرخ گلاب کے پودے کو

اُن پھولوں کو جن کو میں نے اپنے لہو پسینے سے ان کی جوانی تک اُگایا

اور اُمید کی بنجر زمین کو

اپنے لمس سے تمازت بخشا

پھر بھی میں تمہارے سنگ چلوں گی

اس دن جب تم مجھے رخصت کرنا چاہوں گے

جاودانی کے اس راہ پہ ضرور چلوں گی میں

تم تو جانتے ہو ناں

مَرگ راہِ جاودانی ہے

ابدیت کے اَمر راہ کو تم

لوگوں کے لیے چھوڑو ناں۔۔۔

 


0 Comments