غزل


شاعر: عُزیر مھرؔ

چاند تارے ہاتھوں میں ہوا کرتے تھے
کبھی تو ہم بھی کسی کا ہوا کرتے تھے

جانتا ہوں بھنور میں نہیں ڈوبتی اپنی کشتی
کبھی تو ہم بھی ناخدا ہوا کرتے تھے

دور سے بھانپ لیتا ہوں ذُلیقہؔ کی فریب
کبھی تو ہم بھی احبابِ یوسفؔ ہوا کرتے تھے

گِرے ہیں انسان اپنی عظمت سے پستی میں
بِچارے تو اشرف المخلوقات ہوا کرتے تھے

بھائی بھائی کے خون کا ہے پیاسا
پہلے تو یہ شیر و شکر ہوا کرتے تھے

عُزیرؔ کے بال جھڑتے ہیں یکا یک آج کل
کسی دور میں تو گھنا جنگل ہوا کرتے تھے

0 Comments