مصنف: عزیر مہر


اور ہاں میں تم کو اسرارِ سرمستی نہ بتاؤں، برخوردار!

 

غم سے آشنائی، زیبائی سے مِلن اور خاک نشینوں کی سنگت اختیار کرلو، جیون کے ہر ایک اسرار سے پردہ اٹھ جائے گا۔ سارے بھیدوں کی قلعی کُھل جائے گی۔ ان گوہرِ بے بہا کو دامن میں سمیٹوگے اور ان سے آشنائی اختیار کروگے تو راہِ منزل پاؤگے۔

 

میں ابھی گویا ہی تھا کہ دفعتاً قریب بیٹھے مرشد وجد کی عالم میں بول اٹھے:

 

" جو آج زَبر ہے کل زیر ہوگا۔ مد والے نازاں نہ ہوں جزر راہی ہے۔ ہر چراغ اپنی وقتِ معین میں فروزاں ہے۔ من التراب، علی التراب، الی التراب فلماذا الغرور؟"

 

ہمارے ادنی اذہان ان دقیق کلیوں کو ہضم کرنے سے قاصر تھے اور ہم فقط حیرت کے ملگجے میں دھنسے کے دھنسے رہ گئے اچانک درگاہ کا علم زوروشوروں سے لہرانے لگا-

 

 


 

0 Comments