مصنف: عزیر مہر



میں اور میرا دوست ارسلان کچی آبادی میں رہنے والی اس کی ہرجائی محبوبہ کے کوچہ سے دیر رات رخصت ہوکر شہر کی جانب راہی تھے کہ اچانک موسلادھار بارش نے ہمیں راستے میں ہی آگھیرا اور زمین کی جانب اپنی یلغار یکدم تیز کردی۔ ہم الله الله کرکے سرچھپانے کے لیے جلدی سے کوئی جائےِ پناہ ڈھونڈنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک خستہ جھونپڑی سے ہمیں ایک رسیدہ عمر شخص نکلتے دکھائی دیا۔ ہمیں دیکھ کر اُس بزرگ شخص کی آنکھوں میں وہی چمک نمودار ہوا جیسا کہ امیرِ کاروان کو جھلساتی صحرا میں نخلستان دکھائی دے۔



وہ ہمیں مع اپنے اندر لے آیا اور ہماری خوب خاطرداری اور مہمان نوازی کی۔ گھر کے اندر پاؤں رکھتے ہی مجھے ایک یکتا اور الگ قسم کے احساس و جزبے نے اپنی آغوش میں لے لیا اور یوں لگا جیسے کسی نے عطرِ محبت اس کمرے کے ہر ایک گوشے میں چھڑکایا ہو۔



میرا دوست ارسلان ابھی بھی سسکیاں لے رہا تھا اور اس کی آنکھیں شدید رونے کی وجہ سے لال ہوچکی تھیں اور میری طرف منہ موڑتے ہوئے بولا:



یار حمزہ میں نے کیا کچھ نہیں کیا اس کے لیے پھر بھی وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ بتاؤ کہاں کھوٹ تھا میرے پریم میں؟ کون سے جتن میں میں ناکام رہا؟ مہر و وفا کے کس پریکشا سے میں نے پیٹھ دکھائی؟ زرا بتاؤ تو؟



میں چھپ سادھ لیے وہی بیٹھا رہا گویا کسی سانپ نے مجھے سونگھ لیا ہو۔



بزرگ شخص بولے:



بیٹا کیا ہوا؟ کیوں رورہے ہو؟

میرا دوست کلام سے عاجز تھا تو میں نے جواب دیا:

"حضرت، یہ میرا بچپن کا دوست ارسلان، ایک بہادر، ایماندار، باوفا اور بامروت شخص ہے۔ اس نے ایک لڑکی سے دل و جان سے محبت کی لیکن اس نِرموئی نے اس محبت کے صلے اسے اَشک، سسکیاں اور غموں سے چور دل کے سوا کچھ نہ دیا۔"



"بابا جی، سچّی محبت کیا ہوتی ہے؟" میں نے سوال کیا۔

اس بوڑھے شخص نے ایک لٹکتی تصویر جو غالبا اس کی رفیقِ حیات کی تھی، جانب دیکھا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں اور پھر امیر خسرو کے ان اشعار سے اپنی بات شروع کی:



خسرو بازی پریم کی جو میں کھیلی پی کے سَنگ

جیت گئی تو پیا مورے جو میں ہاری پی کے سَنگ



" بیٹا! محبت روح کی ایثار ہوتی ہے، تیاگ چاہتا ہے، گھمنڈی اور بلور اَنا کے توڑنے کا نام ہے۔ یار کے حکم پہ من و عن سر تسلیمِ خم کرنا، امّنا صدقّنا کہنا، یار کی پکار پہ لبیک کہنا، رونا کیا ہے؟ یہ ظالم بلا روح کو حلق تک لے آتی ہے۔ محبت تمام مال و متاع کے بالیدان کو کہتے ہیں۔ ساقیِ نازاں کے ہاتھوں سے جور و جفا کا امرت کا پیالہ بیباکی سے پینا ہے۔"



میں نے محسوس کیا کہ بوڑھے شخص کی آواز جزبات کے دلدل میں بیٹھتا ہی جارہا تھا اور در ایں اثنا میرا دوست اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے خاموشی سے ان باتوں کو سن رہا تھا۔



بوڑھے بابا نے سگریٹ سلگا کر ایک لمبا کشّ لیا اور آخری جملہ بولا:



" تمام عمر کی سرمایہ داری ایک چنگاری کی نظر ہوجاتی ہے۔ بچتا ہے تو محض دھواں، راکھ، خس و خاشاک ، سود کیا کیا زیاں؟ جو ملے دامن میں سمیٹ لو اور رفوچکر ہوجاؤ۔ محبت کی درگاہ میں کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔"



یہ باتیں سن کر میرا دل بھی رولرکوسٹر پہ بیٹھے بچے کی طرح بیٹھ سا گیا اور آنکھیں قدرے نم ہوئیں۔ بارش نے اپنی چال میں نزاکت لائی تو ہم نے بھی چچا جی سے رخصتی چاہی اور وہاں سے نکل گئے۔ باہر آئے تو دور کتوں کی بھونک سنائی دیا اور ایک نزدیکی ہوٹل سے جو رات دیر تک کھلا تھا لتا منگیشکر جی کی یہ گیت چل رہی تھی جو کانوں میں رس گھول رہی تھی:



سدھ بدھ بسرائی میری نیند چرائی

میرا مشکل کردیا جینا

بڑا دکھ دی نا

تیرے لکھن نے بڑا دکھ دی نا

او رام جی، بڑا دکھ دی نا



شراب کے نشے میں دھت مکیش ہوٹل پہ بیٹھے خوب محظوظ ہورہے تھے:



وہ دیپک ہے میں جوتی ہوں

وہ ہنستا ہے میں روتی ہوں

میرے پیار کی قدر اسے ہوگی مگر

مجھے زہر پڑے گا پینا

بڑا دکھ دی نا

تیرے لکھن نے بڑا دکھ دی نا



اب کی بار مکیش کو بوتل خوب چھڑی اور اس نے شور سے ہوٹل کے چچا سے کہا آج خوب آواز بڑھاؤ۔ آج رت ہے پریم کی:



میری اکھیاں میرے سپنے

لے گیا سب کچھ ساتھ وہ اپنے

یہ جانے نگوڑی کائے کو چھوڑی

چھالیے نے سب کچھ چھینا

بڑا دکھ دی نا

تیرے لکھن نے بڑا دکھ دی نا



میں اور ارسلان اس کوچے سے اب کئی دور نکل چکے تھے اور گیت کی آواز گویا دھیمی ہوکر ناپید ہوچکی تھی، اسی سمے میں نے ارسلان کے ہونٹوں کو جنبش کرتے ہوئے دیکھا اور آنکھوں میں تو اشکوں کا متلاطم سمندر ٹاٹھیں مارتا ہوا دیکھائی دیا۔ وہ ضعیف آواز میں زیرِ لب گنگنانے لگا:





نرموئی یہ کیسا جو میں جانتی ایسا

تو میں کرتی پیار کبھی نا

بڑا دکھ دی نا

تیرے لکھن نے بڑا دکھ دی نا



یہ سن کر مجھ پر عجب قسم کی وجد طاری ہوئی، شادیِ مرگ سی کیفیت، بہار و خزا کی آمیزش، قحط اور شادابی کی رفاقت، دلہنی آنسو، میت کے کفن کی خوشبو، بیوہ کی آہ و بکا، بازیچئہِ اطفال کا ٹوٹا ہوا وجود۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کے سارے رنگوں میں رنگ گیا۔۔ رنگریزا۔۔۔



محبت ایک ادبدھ کلاکار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو جانبِ کینوس لاکھڑا کرکے پیکاسو بنادیتا ہے تو کسی کو جوئے شیر لانے آتشی تمازت بھرے پہاڑ سرکرنے پہ مجبور کرتا ہے۔ کوئی کوچہِ جاناں میں اپنی متاہِ حیات لٹا دیتا ہے۔ کوئی البیلا مست سمو کو پکار اٹھتا ہے۔۔۔ کوئی صحراِ نجد میں ننگے پاؤں بھٹکتا رہتا ہے۔۔۔ اپنے اپنے رتبے اور مرتبے ہوتے ہیں صاحب۔۔۔۔



میں سوچوں کے سمندر میں مستغرق تھا کہ رات نے ہمیں اپنے سیاہ کوٹ کے اندر چھپالیا اور ہم پنہاں ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

0 Comments