مصنف: عزہر مہر



یہ ایک پُرجشن اور سہانے دن کی بات ہے جب ہولی تھی رنگولی تھی ہر طرف خوشی اور شادمانی کا سماں تھا تمام نگرپور ہولی کے رنگ میں رنگا گیا تھا۔ اسی دن میری ملاقات رادیکا سے ہوئی۔ سانولی رنگت والی، بنارسی مہک، کلکتے والی شوخی ، بمبئی والی زرق برق کی دیوی تھی وہ ، لال چونریا میں ملبوس وہ ایک سورگ کی اپسرا لگ رہی تھی۔ پھر کیا تھا وہیں نینوں سے نین ملے اس کی پدی زر جیسی مست اکھیوں نے میرے دیمی زر جیسی بنجارے اکھیوں کو الفت کی رسی سے کھینچ لیا۔ دل کے آشیانے میں مجھ کو بھینچ سا لیا۔ چچّا گوپال کے کباڑ سانو ریڈو پہ شوبھا گُرتو جی کی مدھر اور شکر ریز آواز میں یہ گیت فضا میں رنگوں کی پھوار برسا رہی تھی:



رنگ ساری گُلابی چونریا رے

موئے مارے نجریا سانوریا رے



رادیکا کا باپ کٹر مادیت پرست سنگدل بقال اور حریص تاجر تھا اس کو تو ہمہ وقت بس دھن دولت دکھائی دیتا تھا وہ بھلا کب ہمارے پریم کے ولولوں اور جذباتوں کو سمجھتا اسی لیے بیچاری رادیکا کا بیاہ پردیس میں کسی مالدار رشتہ دار سے کرایا۔



جاؤ جی جاؤ کرو ناں بتیاں

اِے جی بالی ہے ہمری عمریا رے ۔۔۔۔

موئے مارے نجریا سانوریا رے



اب کی بار ہولی ہے رنگ رلیاں ہیں، لیکن سارے رنگ پھیکے پھیکے سے ہیں۔ کسی کی کمی ہے، اور سارا گاؤں سونا سونا لگ رہا ہے۔ آج ہولی ہے، رنگ ہے، رنگریزا ملتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت کے سارے رنگ اپنے لال چونریا کے دامن میں باندھ کر وہ دلدار رخصت ہوئی۔ ہاں وہ پشمینہ محو ہوگئیں اور میں نے خونِ دل سے اکیلے ہولی منایا۔



رنگ ساری گُلابی چونریا رے

موئے مارے نجریا سانوریا رے

 

0 Comments